Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچوں کا صفحہ بڑوں کا بچپن اور عظیم ماں

ماہنامہ عبقری - جون 2008ء

مثالی ماں ہر انسان بلکہ ہر جاندار اس دنیا میں رہنے کے لیے اس چیز کا محتا ج ہے کہ اس کے لیے کوئی معا ون مددگار ،مر بی ، مشفق ہستی ہو جو ہر مسئلہ ، ہر مقام پر اس کو درپیش مسائل کا کوئی آسان اور سہل حل ایسے انداز میں بتلا ئے اور سکھائے کہ اس کے ذہن کی تمام الجھنیں اور پریشانیا ں فی الفور ختم ہو جائیں اور اس کے ہر کام کا انجام اپنے پروردگار کی رضاو محبت کا حصول بن جائے ۔ کیونکہ انسان کا دوسرا نا م بندہ ہے ، جس کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہر لمحہ، ہر وقت اور ہر فعل سے یہ ظاہر ہو کہ وہ رب تعالیٰ کی بندگی یعنی اس کو یا د کر تا ہے ، کسی لمحہ بھی اس سے غافل نہیں ۔ حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور اللہ کے ولی تھے ۔ یہ ابھی بچپن کی منا زل طے کر رہے تھے کہ والد محترم کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے ۔ ان کا اصل نام محمد غزالی تھا اور چھوٹے بھائی کا نام احمد غزالی ، دونو ں کی تربیت ان کی والدہ محترمہ نے بڑی جا ں فشانی سے کی ۔ وہ بہت اللہ والی خاتون تھیں ۔ دونو ں بھائیو ں کو ایک دوسرے سے بڑھ کراپنی ما ں سے محبت تھی ۔اپنے سارے مسائل آکر ان کوپیش کر تے اور وہ اتنا آسان حل نکال دیتیں جس کی وجہ سے وہ بہت عمدہ طریقہ سے اپنے تعلیمی مر احل طے کرتے ہوئے وقت کے امام کہلائے ۔ محمد غزالی بڑے واعظ ، شعلہ بیان خطیب تھے ۔ مسجد میں ان کا بہت بڑا تفسیر و حدیث کا حلقہ ہو تا ۔ تمام نما زو ں کی امامت خود کرواتے ، لو گو ں کا ایک ہجو م ان کے ارد گر د رہتا لیکن اس کے بر عکس انکے چھوٹے بھائی احمد غزالی بالکل الگ تھلگ اپنی دنیا آباد کیے ہوئے تھے ۔ عالم وہ بھی تھے لیکن خلوت پسند۔ دونو ں کی طبیعت میں بہت فر ق تھا۔ احمد غزالی ہر وقت بس اپنے حجرہ شریف میں رہتے ۔ وہیں عبادت و ریا ضت کرتے رہتے یہا ں تک کہ مسجد میں نما ز پڑھنے کی بجائے اپنی الگ نماز پڑھتے ۔ ایک مر تبہ امام غزالی نے اپنی والدہ سے کہا امی ! لو گ مجھ پر اعترا ض کر تے ہیں کہ آپ تو اتنے بڑے خطیب اور واعظ ہیں ، مسجد کے امام بھی ہیں لیکن احمد کو نہیں نصیحت کر تے کہ وہ آپ کے پیچھے نما زپڑھے ۔ آپ بھائی سے کہیں کہ وہ میرے پیچھے نما ز پڑھا کر ے ۔ بھائی نے پیچھے نیت با ندھ لی لیکن عجیب با ت ہے کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد جب دوسری رکعت شروع ہوئی تو ان کے بھائی نے نما ز توڑ دی اور جما عت سے با ہر نکل آئے ۔ جب امام غزالی نے نما ز مکمل کرلی تو ان کو بڑی سبکی محسو س ہوئی۔ وہ بہت زیا دہ پریشان ہوئے اور مغموم دل کے ساتھ گھر واپس لو ٹے ۔ ما ں نے جب بیٹے کو دیکھا کہ بڑا مغموم او ر پریشان ہے تو پو چھا کیا ہو ا؟ احمد نے نما ز نہیں پڑھی کیا ؟ تو انہو ں نے جوا ب دیا بھائی نہ جا تا تو زیا دہ بہتر رہتا ۔ ما ں زیادہ گھبرا گئیں بولیں کیا ما جر ا ہوا ، بتا ﺅ تو سہی ؟ انہو ں نے عرض کی امی ! یہ گئے اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد نماز توڑ کر دوسری رکعت میں گھر آگئے ۔ ما ں نے فو راً آواز دی ادھر آﺅ یہ کیا کیا آپ نے ؟چھوٹا بھائی تھاتو چھو ٹا لیکن تھا اونچے درجے کے عالموںمیں سے ۔ فوراً جو اب دیا امی ! میں ان کے پیچھے نما زپڑھنے لگا پہلی رکعت تو انہو ں نے ٹھیک پڑھائی ، دوسری رکعت میں ان کا دھیان اللہ کی بجائے کسی اور طرف لگ گیا ۔ اس لیے میں نے ان کے پیچھے نماز چھوڑ دی اور آکر الگ پڑ ھ لی ! اب ما ں محمد کی طر ف متوجہ ہوئیں ۔ کیا با ت ہے ؟ وہ کہنے لگے امی بالکل ٹھیک با ت ہے ۔ نما ز سے پہلے میں فقہ کی کتاب کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ دوسری رکعت میں دفعتاً کوئی مسئلہ ذہن میں آیااور دھیان اس طر ف مائل ہو گیا ۔ اس لیے مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ ما ں نے اس وقت ایک ٹھندی سانس لی اور کہا تم دونو ں میں سے کوئی بھی میرے کا م کا نہ بنا ۔ یہ جو اب سن کر دونو ں بھائی پریشان ہو گئے ۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے معافی ما نگ لی ۔ امی مجھ سے غلطی ہو ئی ہے مجھے ایسا نہیںکرنا چاہیے تھا ۔ آئندہ سے پوری توجہ دھیا ن سے نماز کا اہتمام کر و ں گا ۔ مگر احمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ پو چھنے لگے امی مجھے تو کشف ہو ا تھا، اس کشف کی وجہ سے میں نے نماز توڑی ۔ میں آپ کے کام کا کیوں نہ بنا ؟ ما ں نے جوا ب دیا کہ تم میں سے ایک مسائل میں الجھ رہا تھا اور دوسرا پیچھے کھڑا اس کے دل کو دیکھ رہا تھا ۔ تم دونوں میں سے اللہ کی طر ف تو ایک بھی متوجہ نہ تھا لہذا تم دونو ں میرے کام کے نہ بنے ۔ دیکھا بچو ! اپنے وقت کے ولی بھی اپنی اصلا ح کی خاطر ما ں کے سامنے سرنگو ں ہیں جس سے پتہ چلا کہ زندگی کے ہر موڑ پر انسا ن کو ایک نا صح کی ضرورت پڑتی ہے۔ ما ں ایک عظیم درسگا ہ ہے ۔ جس نے اماں کی تعظیم کی وہ اپنی منزل کو پہنچ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے ۔ اَلجَنَّةُ تَحتَ اَقدَامِ الاُمَّھَا تِ جنت ما ں کے قدموں تلے ہے۔( مر سلہ : قاری عبدالرزاق ۔ خانیوال ) ملک المو ت سے ملا قات ایک با د شا ہ تھا جس کا ارا دہ اپنی مملکت کی زمین کی سیر اور حال دیکھنے کا ہو ا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک جوڑا منگایا ۔ ایک جو ڑا لایا گیا اس کو پسند نہیں آیا ۔ دوسرا منگا یا گیا ، غر ض بار بار کے بعد نہایت پسندیدہ جوڑا پہن کر سواری منگا ئی گئی ۔ ایک عمدہ گھوڑا لایا گیا ، پسند نہ آیا ۔ اس کو واپس کر کے دوسرا ، تیسرا منگا یا ۔ جب وہ بھی پسند نہ آیا تو سب گھوڑے سامنے لائے گے ۔ ان میں سے بہترین گھوڑا پسند کر کے سوار ہوا۔ شیطان مردودنے اس وقت اور بھی نخوت نا ک میں پھو نک دی ۔ نہا یت تکبر سے سوار ہو ا ۔حشم و خدم ،پیا دہ فو ج ساتھ چل ر ہی تھی مگر بڑائی اور تکبر کی وجہ سے با دشاہ ان کی طر ف دیکھنا بھی گوارہ نہ کر تا تھا ۔ راستہ میں چلتے چلتے ایک شخص نہا یت خستہ حال کپڑوں میں ملا۔ اس نے سلا م کیا ۔ با دشا ہ نے التفات بھی نہ کیا ۔ اس خستہ حال نے گھوڑے کی لگا م پکڑ لی ۔ با دشا ہ نے اس کو ڈانٹا کہ لگا م چھوڑ ، اتنی جرا ¿ت کر تا ہے ؟ اس نے کہامجھے تجھ سے ایک کام ہے ۔ با دشا ہ نے کہا اچھا صبر کر ۔جب میں سواری سے اترو ں گا اس وقت کہہ لینا ۔ اس نے کہا نہیں ابھی کہنا ہے اور یہ کہہ کر زبر دستی لگا م چھین لی ۔ بادشا ہ نے کہا کہہ، اس نے کہا بہت را ز کی بات ہے ، کان میں کہنی ہے ۔ بادشا ہ نے کا ن اس کے قریب کر دیا اور اس نے کہا میں ملک المو ت ہو ں ، تیری جان لینے آیا ہو ں ۔ یہ سن کر با دشا ہ کا چہرہ فق ہو گیا اور زبان لڑکھڑا گئی ۔ پھر کہنے لگا کہ اچھا مجھے اتنی مہلت دیدیںکہ میں گھر میں جا کر کچھ اپنے سامان کا انتظام کر دو ں ۔ گھر والو ں سے مل لو ں ۔ فر شتے نے کہا کہ بالکل مہلت نہیں ہے ۔ اب تواپنے گھر کو اور سامان کو کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔ یہ کہہ کر اس کی روح قبض کر لی ۔ وہ گھوڑے پر سے لکڑی کی طر ح نیچے گر گیا ۔ اس کے بعد وہ فرشتہ ایک نیک مسلمان کے پا س گیا۔ وہ نیک بندہ بھی کہیں سفر پر جا رہا تھا ۔ اس کو جا کر سلا م کیا ۔ اس نے وعلیکم السلام کہا ۔ اس نے کہامجھے تیرے کا ن میں ایک با ت کہنی ہے ۔ اس نے کہا کہو اس نے کا ن میںکہامیں ملک الموت ہو ں۔ اس نے کہا بہت اچھا کہ آپ کا آنا بڑا مبا رک ہے۔ ایسے شخص کا آنا جس کا فراق بہت طویل ہو گیا تھا۔ مجھ سے تو جتنے آدمی دور ہیں ، ان میں سے کسی سے بھی ملا قات کا اتنا اشتیا ق نہ تھا جتنا تمہاری ملا قات کا تھا ۔فرشتے نے کہا کہ تم جس کا م کے لیے گھر سے نکلے ہو ، اس کو جلدی پو را کر لو ۔اس نے کہامجھے حق تعالیٰ شانہ‘ سے ملنے سے زیا دہ محبو ب کو ئی بھی کا م نہیں ہے ۔ فر شتے نے کہا کہ تم جس حالت پر مرنا اپنے لیے پسند کرتے ہو ، میں اسی حالت میں جا ن قبض کر و ں گا ۔ اس شخص نے کہا کہ تمہیں اس کا اختیا ر ہے ؟ فرشتے نے کہا مجھے یہی حکم دیا گیا ہے ( کہ تمہاری خوشی کا اتبا ع کر وں ) اس شخص نے کہا کہ اچھا تو مجھے وضو کر کے نما زپڑھنے دو اور جب میں سجدہ میں جا ﺅ ں تو میری روح قبض کر لینا ۔ چنا نچہ اس نے نما ز شروع کی اور سجدہ میں اس کی روح قبض کی گئی ۔(مر سلہ : حافظ ریا ض الحسن ۔ ننکانہ )
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 398 reviews.